اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری پر سپریم کورٹ میں سماعت کا احوال | سہارا نیوز پاکستان

 


اسلام آباد: (ڈاکٹر ناصر : سہارا نیوز پاکستان) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیراعظم عمران خان کو ایک گھنٹے میں عدالت پیش کرنے کا حکم دے دیا۔


سماعت کا احوال


تحریک انصاف نے عمران خان کی گرفتاری کے خلاف درخواست دے رکھی ہے، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، بنچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

دوران سماعت در خواست گزار کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، عمران خان بائیو میٹرک کروا رہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروازہ تو ڑ کر داخل ہوئی، رینجرز نے عمران خان کے ساتھ بد سلوکی کی اور ان کو گرفتار کیا، عمران خان کو 80 سے 90افراد نے گرفتار کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 90افراد عدالت کے احاطہ میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا تو قیر رہی ؟، نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، نیب اس قسم کی حرکت پہلے بھی کر چکا ہے، نیب نے ایک ملزم کو سپریم کورٹ پارکنگ سے گرفتار کیا تھا، عدالت نے گرفتاری واپس کروائی اور نیب کے خلاف کاروائی ہوئی تھی، معاملہ عدلیہ کے احترام کا ہے۔


جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا بائیو میٹرک


سے پہلے درخواست دائر ہو جاتی ہے ؟، اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ بائیو میٹرک کے بغیر درخواست


دائر نہیں ہوتی اس لیے عمران خان پہلے بائیو میٹرک کروانے گئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بات یہ ہے کہ عمران


خان احاطہ عدالت میں داخل ہو چکے تھے، ایک مقدمہ میں عدالت بلایا تھا، دوسرا دائر ہو رہا تھا، کیا انصاف تک رسائی کے حق کو ختم کیا جا سکتا ہے، کیا مناسب نہ ہوتا نیب رجسٹرار سے اجازت لیتا، نیب نے قانون اپنے ہاتھ میں کیوں لیا ؟۔


جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل درخواست گزار ست


استفسار کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں، اس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔

اسد عمر کو ہائیکورٹ سے گرفتار کر لیا گیا، اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کئی سال سے یہ حرکتیں منتخب نمائندوں کے ساتھ کر رہا ہے، وقت آگیا ہے کہ نیب کے یہ کام ختم ہوں۔


جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ نیب نوٹس کا مطلب


ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہوگا، کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کروا لیتے ہیں، ریکارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصول ہونے والے نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا اس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کو ایک ہی نیب نوٹس ملا ۔

ہوئے اور کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اس پر جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ نیب نے کوئی سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی کاموں کا الزام لگتا ہے، کیا نیب نے گرفتاری کیلئے


رجسٹرار کی اجازت لی تھی ؟۔


نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ وارنٹس کی تعمیل کیلئے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا، انہوں نے عمل درآمد کروایا اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ کیا عدالتی کمرے میں عمل درامد وزارت داخلہ نے کیا ؟، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ مجھے حقائق معلوم نہیں، آج ڈیڑھ بجے ہی تعینات ہوا ہوں۔

کتنے نوٹس جاری کیے تھے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بظاہر نیب کے وارنٹ قانون کے مطابق نہیں تھے، کیا وارنٹ جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی ؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے اور 9 کو گرفتاری ہوئی ، 8 دن تک نیب نے گرفتاری کی خود کوشش کیوں نہیں کی ؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے گرفتار کرنا چاہتی تھی ؟، وزارت داخلہ ک

و 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا ؟۔

ایک تبصرہ شائع کریں

Welcome To Sahara News Pakistan
Let Us Know Your Valuable Feedback Thanks.

جدید تر اس سے پرانی