لاہور : ہائیکورٹ نے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124 اے کو کالعدم قرار دے دیا | سہارا نیوز پاکستان

 


لاہور ہائیکورٹ نے بغاوت کے قانون کے سیکشن 124 اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔ | ڈاکٹر سید ناصر سہارا نیوز پاکستان 


جمعرات کو جسٹس شاہد کریم نے ابوزر سلمان نیازی سمیت دیگر کی درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سنایا، جس کا وکلا رہنماؤں نے خیر مقدم کیا ہے۔


درخواست گزار ہارون فاروق نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ ’بغاوت کی دفعہ 124 اے غداری کے نام پر اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔‘


درخواست میں بغاوت کے مقدمات کا اندراج روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔


دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے سکیشن 124 اے کا دفاع کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ یہ سیکشن آئین کا حصہ ہے، اس دفعہ پر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہیے اور یہ سیکشن صرف بغاوت پر اکسانے یا کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں مدد دیتا ہے۔


فیصلہ سنائے جانے کے بعد انڈپینڈںٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے کہا: ’ہم نے اس سیکشن کو کالعدم قرار دیے جانے کا دفاع کیا اور موقف اختیار کیا کہ حکومت کے پاس بغاوت روکنے کے لیے کارروائی کا اختیار اسی دفعہ کے تحت موجود ہے۔ 


’یہ دفعہ پی پی سی کا حصہ ہے اور قانون میں درج ہے، لہٰذا اس کو کالعدم قرار نہ دیا جائے بلکہ درخواست خارج کی جائے۔‘

 

انہوں نے کہا کہ وہ وفاقی حکومت سے مشاورت کے بعد طے کریں گے کہ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا ہے یا نہیں۔ ’جہاں تک آزادی اظہار رائے کا تعلق ہے تو اس کے لیے سیکشن 19 اے کسی بھی شہری کو اپنی رائے کے اظہار کا قانونی حق فراہم کرتا ہے، اس لیے 124 اے کو کالعدم کرنے کی ضرورت نہیں۔‘

 

انہوں نے بتایا کہ عدالتی فیصلے کے بعد یہ سیکشن غیر فعال ہے جب تک کوئی اور عدالت چیلنج کرنے کی صورت میں اس دفعہ کو بحال کرنے کا حکم نہیں دیتی۔

سماعت کے دوران درخواست گزار ہارون فاروق کے وکیل کا کہنا تھا کہ ’بغاوت کا قانون 1860 میں بنایا گیا جو انگریز دور میں لوگوں کو دبانے کے لیے استعمال ہوتا رہا۔


’اس دور میں بغاوت کا قانون غلاموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جس کے تحت ثبوت نہ ہونے کے باوجود کسی کے کہنے پر بھی مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔"


’اس کے برعکس آئین پاکستان ہر شہری کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔ بغاوت کے قانون کو اب بھی سکیشن 124 اے کے ذریعے انگریز دور کی طرح سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ عدالت اس قانون کی دفعہ 124اے کو کالعدم قرار دے۔‘


عدالت نے آج درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے بغاوت کے قانون کی دفعہ 124اے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا۔


سینیئر قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے کہا: ’آئین میں موجود دفعہ 124 اے ہمیشہ سے متنازع رہی ہے کیوں کہ اس میں شہریوں کے حقوق سلب کر کے ان سے غلاموں جیسا سلوک کرنے کی گنجائش موجود ہے۔


’یہ قانون انگریز دور میں رعایا کو ظلم سے دبانے استعمال کیا جاتا تھا۔ اب 21 ویں صدی ہے اور پاکستان کے آئین میں اس طرح کے قوانین کی گنجائش نہیں ہے۔‘


اشتر اوصاف کے بقول ’اس قانون کو کالعدم قرار دینے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ریاست پاکستان میں رہنے والوں کو چھٹی دے دی جائے کہ وہ آزادی اظہار رائے کی آزادی کے نام پر جو مرضی کرتے رہیں۔


’اس بارے میں مثبت اور فراغ دلی کے ساتھ مہذب معاشروں کی طرح شہریوں کے بنیادی حقوق کو مد نظر رکھ کر نئے سرے سے قانون بنانے کی ضرورت ہے۔‘


ان کے مطابق ’ملکی وقار اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے شہریوں کے لیے قوانین ضرور ہونے چاہییں لیکن ان کی حدود طے کی جانی چاہییں۔


’سیکشن 124 کی طرح سیاسی طور پر لوگوں کو انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بننا چاہیے۔‘


انہوں نے کہا کہ ’قانون میں ایسی دفعات موجود ہیں جو ایک دوسری دفعہ سے ٹکراتی ہیں اسی وجہ سے لوگوں کو انصاف بھی بروقت نہیں مل رہا۔ اس لیے 124 اے جس کے ذریعے بغاوت کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے انہیں تبدیل کرنا لازمی ہے۔‘


ان کے مطابق ’عدالت بالکل اس طرح کے قوانین پر سوال اٹھا سکتی ہے۔ سوال اٹھانا بھی چاہیے اور پارلیمنٹ کو ایسے قوانین کا جائزہ لے کر ترامیم کرنا ہوں گی۔‘


اشتر اوصاف نے کہا کہ ’سیکشن 124 اے میں سنی سنائی باتوں پر بھی کسی کے خلاف بغاوت جیسا سنگین الزام عائد کر کے کارروائی ہو سکتی ہے۔ اس قانون کو آمریت کے ادوار میں لوگوں کو خاموش رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’عدالتوں میں اس کے استعمال سے اجتناب کیا جاتا رہا جو قانون کے مطابق تو نہیں البتہ اسے خلاف قانون بھی قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ نے اسے آئین سے متصادم میرٹ پر قرار دیا ہے، کیونکہ ہمارا آئین تو ہر شہری کوملکی مفادات کے علاوہ آزادی اظہار رائے کا حق دیتا ہے۔‘


’آئین میں اداروں کے حوالے سے ملکی مفادت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلاوجہ مہم جوئی سے تو روکا گیا ہے، لیکن افراد کے کردار پر تو سوال ہوسکتا ہے۔‘

ایک تبصرہ شائع کریں

Welcome To Sahara News Pakistan
Let Us Know Your Valuable Feedback Thanks.

جدید تر اس سے پرانی